شیعہ آن لائن: امریکہ نے اقوام متحدہ میں ہمیشہ اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کی ہے، کیا اسرائیل اقوام متحدہ میں امریکہ کی حفاظتی ڈھال سے محروم ہونے والا ہے یا اس کو امریکی تعاون حاصل رہے گا؟ ایک سال قبل ان سوالات کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی اسلامتی کونسل میں شدید قراردادوں سے محفوظ رکھنا طویل عرصے سے امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا مرکزی ستون رہا ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ اور نتن یاہو حکومت کے درمیان اچانک زوال پذیر ہوتے تعلقات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے وسیع تر تعلقات کے تناظر میں اسرائیل کو حاصل غیر مشروط امریکی حمایت یا امریکی حفاظتی ڈھال پر اب وائٹ ہاؤس میں بات ہوتی ہے۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ دو قریبی اتحادیوں کے درمیان کشدیگی کو اتنا واضح اور تضحیک آمیز انداز میں منظر عام پر لایا جائے۔ اوباما اور انکے قریبی معاونین کا انتخابی مہم کے دوران رپبلکن حکام کی جانب سے دیئے گئے کانگرس کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے دعوت نامہ قبول کرنے پر بنیامین نتن یاہو پر غصہ کوئی راز کی بات نہیں ہے، اور پھر اس اجلاس کو واشنگٹن اور تہران کے درمیان ہونے والے متوقع جوہری معاہدے کو حرف تنقید بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ 

نتن یاہو نے اسرائیل میں انتخابات کی مہم کے آخری دنوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کی، جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے پالیسی پر نظر ثانی مکافات عمل دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ اس وقت سے اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کے قیام کےحوالے سے موقف تبدیل کرلیا تاہم اوباما انتظامیہ دباؤ بڑھا رہی ہے۔ امریکی صدر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا، نتن یاہو نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آسکتا جب تک وہ وزیراعظم ہیں۔ نتن یاہو کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس نے کسی بھی موقع پر یہ اشارہ نہیں دیا کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں امریکہ کا تحفظ حاصل کرتا رہے گا۔ اس کے برعکس، انتظامی حکام کی جانب سے جان بوجھ کر غیر یقینی بیانات دیئے گئے۔ نتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ کی دوران انھیں صدر اوباما کی جانب سے خوش آمدید نہیں کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنیسٹ نے گذشتہ ماہ کہا تھا، امریکہ نے اقوام متحدہ میں جو قدم اٹھائے ہیں، ان سے دو ریاستی حل ہی بہترین نتیجے کی پیشن گوئی ہوتی ہے۔  

یہ الفاظ سفارتی دنیا اور خاص طور پر نیویارک میں گونجتے رہے۔ اب ہمارے اتحادی نے ان مذاکرات میں کہا ہے وہ اس حل کے لیے پابند نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس معاملے میں اپنی پوزیشن کا دوبارہ جائزہ لینا ہے، اور اب ہم یہی کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ 1970ء کی دہائی سے امریکہ نے سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت سے اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں آبادکاری، غزہ اور لبنان میں فوجی کارروائیوں اور مغربی کنارے میں متنازع باڑ کے معاملوں میں ناموافق اور مخالفانہ قراردادوں سے بچانے کے لیے اپنی ویٹو کی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ فروری 2011 میں اوباما انتظامیہ نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی آبادکاری کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔ جبکہ گذشتہ برس دسمبر میں سنہ 2017 تک فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کے مطالبے کے حوالے سے فلسطینی قرارداد کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ نے لابی انگ کی، اس قرارداد کی منظوری کے لیے لازمی 9 ووٹ درکار تھے جو حاصل نہ ہوسکے (اس کا مطلب یہ تھا اس کو روکنے کے لیے امریکہ کے ویٹو کی ضرورت نہیں تھی)۔ 

اس کے محض چار ماہ بعد اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے پر مبنی یورپی قرارد منظور کرے گا یا نہیں۔ فرانس کی جانب سے کیے گئے اس اقدام پر اس ہفتے اس قرارداد کے مسودے کی تیاری پر کام شروع کیا جائے گا، جس میں مذاکرات کا ٹائم ٹیبل اور فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہوں گے۔ عمومی طور پر اسرائیلی یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ امریکی ایسا کوئی بھی اقدام رد کر دے۔ تاہم اب امریکہ کی مخالفت کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فیبیوس نے گذشتہ ہفتے قرارداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ پارٹنرز جو ناراض تھے اب ناراض نہیں ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سابق اہلکار اور خارجی تعلقات کی کونسل کے سینیئر فیلو رابرٹ ڈینن کہتے ہیں، کیا امریکہ اسرائیل مخالف قرارداد کو رد کرسکتا ہے؟ یہی اہم سوال ہے۔ ایسا واضح طور پر ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی قرارداد اوباما انتظامیہ کے لیے تاریخ میں یاد رکھی جائے گی تاہم تمام تر امور کا انحصار قرارداد کے معیار پر ہے۔ 

الفاظ کا چناؤ انتہائی اہم ہے، اب جب کہ اسرائیل میں نئی اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آرہا ہے، رابرٹ ڈینن کا خیال ہے کہ واشنگٹن نتن ہایو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے، انتظامیہ مزید اعتدال پسند اتحاد بنانے کے لیے سفارتکارانہ ابہام کو استعمال کر رہا ہے۔ جب میں نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفارتکار رون پروسور سے پوچھا کہ کیا ان کا ملک امریکی تحفظ کھونے والا ہے تو انھوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، اسرائیل کا امریکہ سے بہتر کوئی اور دوست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، امریکی عوام جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اسرائیل کے عوام سے بہتر کوئی اور دوست نہیں ہے۔ تاہم رون پروسور اقوام متحدہ میں ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے سفارکارانہ کوشش کرسکتے ہیں تاہم ان میں بڑھتی ہوئی دراڑ واضح دکھائی دے رہی ہے۔ اسرائیل کو کیپٹل ہل پر بھاری حمایت حاصل ہے، نہ صرف رپبلکنز بلکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے بھی۔ 
اگر اوباما انتظامیہ تحفظ ختم کردیتی ہے تو کانگرس کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ 

صدر اوباما کے سامنے کئی اور اندرونی سیاسی سوالات کا سامنا بھی ہے۔ ان کے لیے اپنی میراث چھوڑنے کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ کوئی اور ڈیموکریٹ انکے بعد ان کی جگہ آئے، وہ ہیلری کلنٹن ہوسکتی ہیں۔ صدارتی انتخابات کے انعقاد میں دو سال سے کم وقت رہتا ہے اور اس وقت اسرائیل کے ساتھ پھوٹ سے یہودی ووٹرز ناراض ہوسکتے ہیں، اگرچہ ان دنوں یہودی ووٹ کو یک سنگ کے طور پر بات کرنا مشکل ہے کیونکہ امریکی یہودی امریکی انتظامیہ کی طرح نتن یاہو کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اوباما انتظامیہ ایک کمزور قرارداد کو سلامتی کونسل میں جانے دے جو امن معاہدے کی حدود کا تعین کرے اور ایک بار پھر زمین کے امن فارمولے کا احاطہ کرے لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی ڈیڈلائن نہ ہو۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی اس حفاظتی ڈھال کی مخالفت ہوئی ہیں۔ 

1990ء میں پہلی بش انتظامیہ نے یروشلم میں القدس الشریف کے حرم میں فسادات سے متعلق اسرائیل کی شدید مخالف قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، جسے ایک واضح تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ تاہم مئی 2004ء میں بش انتظامیہ نے، جو اسرائیل کی حمایتی تھی، غزہ میں اسرائیل کے فوجی کارروائی کی مذمتی قرارداد ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے رد کر دی تھی۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اب تحفظ ختم کرنے کو ایک تاریخی تبدیلی کے طور پر دیکھا جائے گا کیونکہ مذکورہ قرارداد کا براہ راست تعلق اسرائیل اور فلسطین سے ہے: دو ریاستی حل بذات خود۔ سخت الفاظ پر مبنی ایک ایسی قرار داد کی امریکہ کی طرف سے حمایت جس کی اسرائیل شدید مخالفت کر رہا ہو ایک ایسے امریکی صدر کے لیے بھی جس کی عہدہ صدارت کی دوسری مدت ہو اور جو اسرائیل سے ناراض ہو آسان نہیں ہو گا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

 
Top