شیعہ آن لائن:
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کے پہلے مکمل غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجہ کے مطابق گانچھے کے حلقہ 23 سے نواز لیگ کے امیدوار غلام حسین ایڈووکیٹ کامیاب قرار پائے ہیں۔ (ن) لیگ کے غلام حسین ایڈووکیٹ نے 6 ہزار 132 ووٹ حاصل کئے۔ حلقہ 6 ہنزہ سے مسلم لیگ (ن) امیدوار کے میر غضنفر علی 6 ہزار 384 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ عوامی ورکرز پارٹی کے بابا جان 3 ہزار 574 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پیپلز پارٹی اس حلقے سے 3 ہزار 188 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہی۔ حلقہ 6 ہنزہ کے کل رجسٹرڈ ووٹ 36 ہزار 417 ہیں تاہم اس حلقہ سے ٹرن آئوٹ 44 فیصد رہا۔ حلقہ 5 ہنزہ سے مجلس وحدت مسلمین کے رضوان علی 2 ہزار 436 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ آزاد امیدوار پرنس قاسم علی ایک ہزار 932 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ حلقہ 5 ہنزہ میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 11 ہزار 992 ہے لیکن ٹرن آئوٹ تقریباً 52 فیصد رہا۔ حلقہ 18 دیامر سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد وکیل 3500 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ ان کے مدمقابل جے یو آئی (ف) کے حاجی گلبر خان 2180 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔

حلقہ 22 گانچھے سے (ن) لیگ کے ابراہیم ثنائی 11 ہزار 251 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ تحریک انصاف کی آمنہ انصاری 2 ہزار 81 ووٹ لے دوسرے نمبر پر رہیں۔ حلقہ 4 ہنزہ سے مجلس وحدت مسلمین کے علی محمد 26 ہزار 15 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کے محمد علی 25 ہزار 13 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کے پُرامن انتخابات نے نئی سیاسی روایت قائم کر دی ہے۔ گلگت بلتستان کے صلح جو عوام نے مبصرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ صبح سویرے سے پولنگ سٹیشنز پر طویل قطاریں لگنے لگیں۔ لوگ ٹولیوں میں ووٹ ڈالنے پہنچتے رہے۔ مختلف امیدواروں کے ایجنٹ اپنا کام انجام دیتے رہے لیکن کسی نے ہنگامہ آرائی نہیں کی اور نہ ہی کسی نے گولی چلائی۔ گلگت بلتستان میں کئی خواتین نے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور خواتین کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنز آئیں۔ گلگت بلتستان میں صبح آٹھ بجے سے چار بجے تک 7 اضلاع کی 24 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے مگر کسی جگہ بھی دھاندلی کی شکایت نہیں آئی۔ انتخابات میں مجموعی طور پر 271 امیدواروں نے حصہ لیا۔ مسلم لیگ (ن) نے تمام چوبیس حلقوں سے امیدوار کھڑے کئے۔ پیپلز پارٹی نے 22 اور تحریک انصاف نے 21 امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ ایم کیو ایم کے 9، آل پاکستان مسلم لیگ کے 12 جبکہ جے یو آئی اور اسلامی تحریک کے 10، 10 امیدوار میدان میں آئے۔ 124 امیدواروں نے آزاد حیثیت سے قسمت آزمائی کی۔


ایک تبصرہ شائع کریں

 
Top