شیعہ آن لائن: کراچی میں ایک نوجوان کو دہشت گردوں نے زندہ
جلانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ زخمی جوان کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ جہاں زخمی جوان
نے میڈیا کو دیے گئے بیان نے نیا رخ اختیار کرلیا۔
شہر قائد میں
جلائے گئے نوجوان کے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیا، طالب علم کا کہنا ہے کہ اسے
اغوا کے بعد مشکوک بیگ ایک جگہ رکھنےکوکہاگیا،انکارپرجلادیا گیا۔ کراچی کے علاقے ڈیفنس سے
اغوا ہونے والے طالب علم نے پولیس کو بیان دے دیا ہے۔ طالبعلم کا کہنا ہے کہ اغوا
کار اس سے دہشت گردی کروانا چاہتے تھے جبکہ حارث کو ڈیفنس میں اتارنے والے رکشہ
ڈرائیور کا کہنا ہے کہ حارث ایک لڑکی کے ساتھ ڈیفنس میں اترا تھا۔ دوسری جانب آئی جی سندھ
غلام حیدر جمالی نے ڈیفنس ویو سے نوجوان کے اغوا اور زندہ جلانے کی تحقیقات کا
دائرہ وسیع کرتے ہوئے کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کو شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔کراچی
کے نوجوان حارث کے اغوا اور دہشت گردی کا آلہ کار بنانے کی کہانی نیا رخ اختیار
کرگئی ہے۔ کہانی میں دہشت گردوں کے ساتھ اب یونیورسٹی کی طالبہ کا کردار بھی شامل
ہوگیا ہے۔ حارث
نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ سولہ فروری کو یونیورسٹی سے گھر واپسی پر اسے ڈبل کیبن
گاڑی میں اغوا کرلیا گیا۔ اغوا کار پشتو بول رہے تھے۔ تین دن تک اسے تشدد کر کے
مشکوک بیگ حساس مقام پر رکھنے پر دباؤ ڈالا لیکن جب وہ نہ مانا تو پیٹرول چھڑک کر
آگ لگادی۔ فیاض
نامی ایک رکشہ ڈرائیور نے پولیس کو کچھ اور ہی بیان دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ حارث
نے اقرا یونیورسٹی کے باہر رکشہ روکا اور ایک طالبہ کے ساتھ رکشہ میں بیٹھ گیا۔
حارث نے رکشہ ڈرائیور کو ڈھائی سو روپے میں ڈیفنس تک چلنے کی بات کی۔ رکشہ ڈرائیور
نے حارث اور لڑکی کو منزل پر اتار دیا جس کے بعد وہ پیدل چل دیے۔
ایک تبصرہ شائع کریں