پاکستان کی پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں نے فوج سعودی عرب بھیجنے کے معاملے پر یک زبان ہو کر ایک متفقہ قرار داد منظور کی لیکن پارلیمان سے باہر دینی اور مذہبی جماعتیں خارجہ اور قومی سلامتی کے اس اہم معاملے پر بری طرح منقسم ہیں۔
سخت گیر دینی اور مذہبی تنظیمیں سعودی عرب کی مدد کے لیے فوج بھجوانے کے معاملے پر واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئیں ہیں۔
بعض تنظیمیں سعودی عرب فوج بھیجنے کی حمایت کرتے ہوئے اسے دینی اور اخلاقی فریضہ قرار دے رہی ہے اور اپنے موقف کے حق میں حیران کن تاویلیں گھڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب فوج بھیجنے کی مخالف جماعتیں کا خیال ہے کہ پاکستان کی فوج کو بیرونی لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیے۔
جماعت الدعوۃ اور جمیعت اہلحدیث ان جماعتوں اور تنظیموں میں پیش پیش ہیں جو سعودی عرب فوج بھیجنے کی حامی ہیں۔
مرکزی جمیعت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مدد کی اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب جس طرح کی مدد کا تقاضہ یا مطالبہ کرے پاکستان کو اس کے مطابق مدد کرنی چاہیے۔
اس طرح کی تنظیمیں احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس کرنے میں سیاسی جماعتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہیں
یاد رہے کہ مولانا ساجد میر پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس میں حاضر نہیں ہو سکے تھے جس میں سعودی عرب فوج بھیجنے کی مخالفت میں متفقہ قرار داد پیش کی گئی تھی۔ سینیٹر مولانا ساجد میر کا کہنا ہے کہ حکومت مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرار داد کی پابند نہیں ہے۔
جماعت الدعوۃ بھی سعودی عرب کی مدد کی بھر پور حمایت کر رہی ہے اور اس ضمن میں حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
جماعت الدعوۃ کا موقف ہے کہ سعودی عرب کی مدد کی جائے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی ہر ممکن مدد و حمایت کرے۔
جماعت الدعوۃ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی عرب کو سٹریٹیجک پارٹنر قرار دینے سے غلط فہمیاں دور ہو جانی چاہیں۔اب فیصلہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب اتحادنے کرنا ہے کہ اسے پاکستان سے کسی قسم کی مدد چاہیے۔
سنی اتحاد کونسل ان تنظیموں میں شامل ہے جو سعودی عرب فوج بھجوانے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
کونسل کے سربراہ حامد رضا کہتے ہیں کہ پاکستان خود داخلی طور پر خلفشار کا شکار ہے اور اس کو کسی بیرون جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ان کے بقول مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کیا جائے کیونکہ دوسرا راستہ تباہ کن ہے۔
حامد رضا کا کہنا ہے کہ مسئلہ سعودی عرب کی سالمیت کا نہیں بلکہ یمن کی سالمیت کا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کی رائے ہے کہ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے وہاں حملہ کردیا جائے۔ بقول ان کے ایسا ہو تو پھر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بھارت، چین یا پھر ایران حملہ کردے اور کیا پاکستان افغانستان میں جمہوریت کےقیام کے لیے اس پر حملہ کردے۔
متحدہ مجلس وحدت مسلمین پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھیجنے کی مخالف ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان اپنی فوج سعودی عرب بھجواتا ہے تو اس سے مشکلات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ تنظیم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی کہتے ہیں پاکستانی فوج ملک کی خودمختاری کی حفاظت کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان غیرجابندارنہ کردار ادا کرے اور بیرونی جنگ کا حصہ نہ بنے کیونکہ کرائے کے فوجی بننا ملک کی خودمختاری اور وقار کے منافی ہے۔
اہلنست والجماعت کا موقف ہے کہ پاکستان کو ایران پر زور دینا چاہیے کہ وہ یمن میں باغیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ یمن میں ایران مداخلت کررہا ہے اور اسی وجہ سے بحران پیدا ہوا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ یمن میں جمہوریت بحال ہونی چاہیے اور ایران باغیوں کو قائل کرے کہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہوں اور انتخابات میں حصہ لیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

 
Top